کیا پوری دنیا میں رمضان کی ابتدا اور عید ایک ہی دن ہو سکتی ہے ؟
اس مسئلے کا متعلق اس بات سے ہے کہ کیا اختلاف مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟
(مطلع کا معنیٰ ہے ’’چاند کے طلوع ہونے کی جگہ‘‘ اس طرح اختلاف مطالع کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنے کی جگہ الگ الگ ہوا کرتی ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ ایک جگہ چاند نمودار ہو اور دوسری جگہ نہ ہو ۔ ایک جگہ پہلے دن نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن ۔)
جو علاقے جتنے زیادہ مغرب کی طرف ہوتے ہیں وہاں اتنی جلدی چاند نظر آنے کا امکان ہے ، اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مغربی افق پر چاند نظر آگیا تو ظاہر ہے کہ وہاں کے مسلمان اس کے مطابق عمل کریں گے، لیکن اگر کسی دوسرے ملک میں چاند نظر نہ آیا تو کیا اس دوسرے ملک والوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مقام پر نظر آنے والے چاند کی بنیاد پر روزہ رکھنا شروع کریں یا عید منالیں ؟
اس سلسے میں فقہا کرام کے 3 اقوال ہیں :
1 ۔ اختلاف مطالع کا ہر جگہ ہر حال میں اعتبار کیا جائے۔
2 ۔ اختلاف مطالع کا کسی جگہ کسی حال میں بھی اعتبار نہ کیا جائے اور ایک جگہ چاند نظر آنے پر پوری دنیا کے مسلمان اسی پر عمل کریں۔
3 ۔ بلاد بعیدہ (دور دراز علاقوں) میں اس کا اعتبار کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں چاند کے نظر آنے پر اس کے مطابق عمل کریں جبکہ (قریبی علاقوں ) میں اس کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ایک جگہ چاند نظر آنے پر دوسری جگہ اس کے مطابق عمل کرلیا جائے ۔
متاخرین حنفیہ میں سے بہت سے فقہا نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔
البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے علاقے بلاد قریبہ شمار ہوں گے اور کون سے بلاد بعیدہ، اس بارے میں بعض فقہانے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ایک علاقے کی رویت کا اعتبار کرنے میں دوسرے علاقے کا مہینہ اٹھائیس یا اکریس دن کا ہورہا ہو تو بلاد بعیدہ شمار ہوں گے اور اگر یہ فرق نہ پڑتا ہوتو وہ بلاد قریبہ شمار ہوں گے۔
البتہ ماہرین فن کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا بنیاد پر بلاد قریبہ اور بلاد بعیدہ کا فیصلہ کرنا فنی اعتبار سے زیادہ درست نہیں کیوںکہ چاند بعض مرتبہ نظر آنے کے قریب ہوتا ہے لیکن وقت کی تھوری سی کمی اسے غائب کردیتے ہے جبکہ نظرآنے کے بعد وہ بہت دور تک کے علاقوں میں نظر آتا رہتا ہے اس لئے بعض دفعہ تھوڑے سے فاصلے سے مطلع بدل جاتا ہے اور پھر بہت زیادہ فاصلے تک مطلع نہیں بدلتا ، مثلاً ولادت قمر کے سولہ گھنٹے بعد چاند نظر آنے کا امکان ہے تو جب اس کی عمر پونے سولہ گھنٹے ہوگی تو وہ نظر نہیں آئے گا، پندرہ منٹ کے فاصلے پر (یعنی تقریبا ڈھائی سو میل مغرب کی طرف) سولہ گھنٹے کا ہوجائے گا اور وہاں ںظر آجائے گا اور اس کے بعد آنے والے مغربی علاقوں میں نظر آتا رہے گا اس لئے بہتر یہ ہے کہ جس علاقے میں نظر آئے وہی علاقے والے اس پر عمل کریں ۔
دونوں آرا کو سامنے رکھ کر نیر موجودہ حالت کی روشنی میں زیادہ قابل عمل صورت یہ نظر آتی ہے کہ ایک ملک کے تمام علاقوں کو ایک ہی طرح کے قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند ہونے کی وجہ سے بلاد قریبہ قرار دیا جائے اور ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے پر پورے ملک میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے جبکہ دیگر ممالک کے حکم کا مدار وہاں کی رؤیت پر رکھا جائے۔
اس مسئلے کا متعلق اس بات سے ہے کہ کیا اختلاف مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟
(مطلع کا معنیٰ ہے ’’چاند کے طلوع ہونے کی جگہ‘‘ اس طرح اختلاف مطالع کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے مختلف خطوں میں چاند کے طلوع ہونے اور نظر آنے کی جگہ الگ الگ ہوا کرتی ہے، لہذا عین ممکن ہے کہ ایک جگہ چاند نمودار ہو اور دوسری جگہ نہ ہو ۔ ایک جگہ پہلے دن نظر آئے اور دوسری جگہ دوسرے دن ۔)
جو علاقے جتنے زیادہ مغرب کی طرف ہوتے ہیں وہاں اتنی جلدی چاند نظر آنے کا امکان ہے ، اب سوال یہ ہے کہ اگر کسی مغربی افق پر چاند نظر آگیا تو ظاہر ہے کہ وہاں کے مسلمان اس کے مطابق عمل کریں گے، لیکن اگر کسی دوسرے ملک میں چاند نظر نہ آیا تو کیا اس دوسرے ملک والوں کے لئے ضروری ہے کہ پہلے مقام پر نظر آنے والے چاند کی بنیاد پر روزہ رکھنا شروع کریں یا عید منالیں ؟
اس سلسے میں فقہا کرام کے 3 اقوال ہیں :
1 ۔ اختلاف مطالع کا ہر جگہ ہر حال میں اعتبار کیا جائے۔
2 ۔ اختلاف مطالع کا کسی جگہ کسی حال میں بھی اعتبار نہ کیا جائے اور ایک جگہ چاند نظر آنے پر پوری دنیا کے مسلمان اسی پر عمل کریں۔
3 ۔ بلاد بعیدہ (دور دراز علاقوں) میں اس کا اعتبار کیا جائے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں چاند کے نظر آنے پر اس کے مطابق عمل کریں جبکہ (قریبی علاقوں ) میں اس کا اعتبار نہ کیا جائے بلکہ ایک جگہ چاند نظر آنے پر دوسری جگہ اس کے مطابق عمل کرلیا جائے ۔
متاخرین حنفیہ میں سے بہت سے فقہا نے تیسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔
البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کونسے علاقے بلاد قریبہ شمار ہوں گے اور کون سے بلاد بعیدہ، اس بارے میں بعض فقہانے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ایک علاقے کی رویت کا اعتبار کرنے میں دوسرے علاقے کا مہینہ اٹھائیس یا اکریس دن کا ہورہا ہو تو بلاد بعیدہ شمار ہوں گے اور اگر یہ فرق نہ پڑتا ہوتو وہ بلاد قریبہ شمار ہوں گے۔
البتہ ماہرین فن کا کہنا ہے کہ مذکورہ بالا بنیاد پر بلاد قریبہ اور بلاد بعیدہ کا فیصلہ کرنا فنی اعتبار سے زیادہ درست نہیں کیوںکہ چاند بعض مرتبہ نظر آنے کے قریب ہوتا ہے لیکن وقت کی تھوری سی کمی اسے غائب کردیتے ہے جبکہ نظرآنے کے بعد وہ بہت دور تک کے علاقوں میں نظر آتا رہتا ہے اس لئے بعض دفعہ تھوڑے سے فاصلے سے مطلع بدل جاتا ہے اور پھر بہت زیادہ فاصلے تک مطلع نہیں بدلتا ، مثلاً ولادت قمر کے سولہ گھنٹے بعد چاند نظر آنے کا امکان ہے تو جب اس کی عمر پونے سولہ گھنٹے ہوگی تو وہ نظر نہیں آئے گا، پندرہ منٹ کے فاصلے پر (یعنی تقریبا ڈھائی سو میل مغرب کی طرف) سولہ گھنٹے کا ہوجائے گا اور وہاں ںظر آجائے گا اور اس کے بعد آنے والے مغربی علاقوں میں نظر آتا رہے گا اس لئے بہتر یہ ہے کہ جس علاقے میں نظر آئے وہی علاقے والے اس پر عمل کریں ۔
دونوں آرا کو سامنے رکھ کر نیر موجودہ حالت کی روشنی میں زیادہ قابل عمل صورت یہ نظر آتی ہے کہ ایک ملک کے تمام علاقوں کو ایک ہی طرح کے قوانین اور اصول و ضوابط کا پابند ہونے کی وجہ سے بلاد قریبہ قرار دیا جائے اور ملک کے کسی بھی حصے میں چاند نظر آنے پر پورے ملک میں اس کے مطابق فیصلہ کیا جائے جبکہ دیگر ممالک کے حکم کا مدار وہاں کی رؤیت پر رکھا جائے۔
آسان فلکایت ، مولانا اعجاز احمد صمدانی (صفحہ :79)
و فتح الملہم، کتاب الصوم ، باب بیان ان لکل بلد رؤیتھم
و فتح الملہم، کتاب الصوم ، باب بیان ان لکل بلد رؤیتھم
No comments:
Post a Comment