Wednesday, October 24, 2018

چین نے سمندر پر دنیا کا طویل ترین پل ٹریفک کے لیے کھول دیا۔



چین کی مرکزی سرزمین کو خصوصی اختیارات کے حامل چینی علاقے ہانگ کانگ کے ساتھ ایک پُل کے راستے جوڑ دیا گیا ہے۔ پل کی تکمیل سے چین سے ہانگ کانگ کا سفر صرف تیس منٹ کا رہ گیا ہے۔
یہ دنیا میں سمندر پر بنایا گیا سب سے طویل پُل ہے۔ ہانگ کانگ اور میکاؤ کو چینی شہر ژوہائی سے اس پُل کے ساتھ مِلایا گیا ہے ۔ اس پل کی لمبائی پچپن کلومیٹر ہے۔ بیس بلین امریکی ڈالر کی لاگت سے تعمیر ہونے والے اس پل کو تقریباً دس برسوں میں مکمل کیا گیا۔

میکاؤ کا جزیرہ بھی ژوہائی شہر کے سامنے واقع ہے۔ بحری جہازوں کے گزرنے کے لیے اس پُل کو دریائے پرل کے ڈیلٹا کے قریب زیر سمندر سرنگ سے بھی منسلک کیا گیا۔
ہانگ کانگ کو چین کی سرزمین (مین لینڈ) سے جوڑنے والے 55 کلومیٹر طویل پل کا کئی سال کی تاخیر کے بعد حال ہی میں افتتاح ہوا ہے۔
 ڈیلٹا پر تعمیر ہونے والا دنیا کا طویل ترین پل ہے۔ اس کی لمبائی 55 کلو میٹر سے زیادہ ہے جو اپنے آپ میں بےمثال انجینیئرنگ کا نمونہ ہے۔
ایک سرے سے دوسرے سرے تک بشمول دو لنک سڑکوں کے اس پل کی لمبائی سین فرانسسکو کے گولڈن گیٹ برج کی تقریبا 20 گنا ہے۔
اس کا ڈیزائن زلزلوں، علاقے کو تہ و بالا کر دینے والے موسمی سمندری طوفانوں اور حادثاتی طور پر جہازوں کی ٹکر کو برداشت کرنے کی صلاحت کو ذہن میں رکھ کر بنایا گیا ہے۔
جہازوں کو سمندر کے مدوجزر سے گزرنے کے لیے یہ پل دو مصنوعی جزائر سے ہوتے ہوئے 7۔6 کلو میٹر تک زیر آب ہے۔
یہ پل ہانگ کانگ کے بین الاقومی ایئرپورٹ سے بھی گزرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انجینیئروں کے پیش نظر پل کی بلندی کی بھی حد رہی ہوگی۔
یہ پل ہانگ کانگ کے بین الاقومی ایئرپورٹ سے بھی گزرتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انجینیئروں کے پیش نظر پل کی بلندی کی بھی حد رہی ہوگی۔
اس پل کی تعمیر کا کام سنہ 2009 میں شروع ہوا تھا اور یہ حفاظتی خدشات کے پیش نظر تاخیر کا شکار رہا۔ اس کی تعمیر میں بجٹ سے زیادہ رقم خرچ ہوئی اور بالآخر اس میں 20 ارب ڈالر کا خرچ آیا۔
اس کے افتتاح کی تاریخ پہلے سنہ 2016 طے کی گئی تھی لیکن رواں ماہ بھی اس کے افتتاح کی تارخ اس وقت تک طے نہیں تھی جب تک کہ اس کا واقعی افتتاح نہ ہوا۔
پل پر نہ صرف بجٹ سے زیادہ خرچ آیا اور زیادہ وقت لگا بلکہ اس میں مزدوروں کی جانیں بھی گئیں۔ اس پورے پروجیکٹ کے درمیان چین اور ہانگ کانگ کے حکام کے مطابق نو مزدوروں کی جانیں گئيں۔
اس پل کے ذریعے چین کے تین مختلف حصے مکاؤ اور ہانگ کانگ کے دو مخصوص انتظامی علاقے چین کے مین لینڈ سے جڑ گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ پل مختلف قانونی اور سیاسی حصے پر محیط ہے۔
اس پل سے کمرشیئل اور مسافر بردار بسیں اور ٹرکس گزریں گے۔ مقامی ٹیکسیوں کو اس پل سے گزرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ بہت ہی کم نجی کاروں کو اس پر سے گزرنے کا پرمٹ حاصل ہوگا۔
ہانگ کانگ سے چین کے مین لینڈ جانے کے لیے پاس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پل کا استعمال کرنے والوں کے لیے دو امیگریشن مراکز بھی بنائے گئے ہیں۔
یہ پل کیوں تعمیر کیا گيا ہے؟ وقت بچانے کے لیے کیونکہ سمندر کے اس مثلث نما دہانے کو عبور کرنے کے لیے چار گھنٹے لگتے تھے جبکہ اس پل کی مدد سے اب صرف 30 منٹ میں یہ فاصلہ طے کیا جا سکتا ہے۔
لیکن بعض لوگوں نے ہانگ کانگ میں اس پل کے مقاصد پر سوال اٹھایا ہے کہ اس پل کی کسی کو ضرورت نہیں تھی لیکن ہانگ کانگ کو چین کے مین لینڈ سے قریب تر لانے کے لیے اس پل کی تعمیر کی گئی ہے


چین نے چودھویں کے چاند سے آٹھ گنا زیادہ روشنی دینے والا چاند بنالیا۔

تفصیلات کے مطابق چین نے اگلے دو سال میں ایسا مصنوعی چاند بنانے کا اعلان کیا ہے جو راتوں میں چاند کی طرح دھیمی روشنی فراہم کرے گا۔ چین میں کئی ادارے ملکر مصنوعی چاندنی دینے والے سیٹلائٹ پر کام کررہے ہیں اور اگلے دو برس میں اسے خلا میں بھیج دیا جائے گا۔

چینی سائنسدانوں نے سولر پینل جیسے آئینوں پر خاص قسم کی کوٹنگ کی ہے جو سورج کی روشنی کو انتہائی درجے تک منعکس کرکے چینگ دو شہر کی جانب بھیجے گی۔ یہ سیٹلائٹ چین کے قریب رہتے ہوئے مدار میں گردش کرے گا اور خود چین کی سرزمین سے بھی آسمان پر دمکتا دکھائی دے گا۔ لیکن اس کے راکٹ اور خلائی منصوبے کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی ہے۔
چینگ دو شہر کے لوگ اس سیٹلائٹ کے منتظر ہیں جس سے شہر میں سیاحوں کی آمد بھی شروع ہوسکے گی۔ لیکن کچھ ڈاکٹروں نے کہا ہےکہ رات کے وقت سیٹلائٹ سے مسلسل روشنی شہریوں کی قدرتی جسمانی گھڑی اور معمولات کو متاثر کرسکتی ہے۔ اس طرح ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
تاہم سیٹلائٹ کے آئینوں پر کام کرنے والے ادارے کے سربراہ کینگ وائماں نے کہا ہے کہ یہ روشنی بہت مدھم ہوگی اور رات کو دن میں نہیں بدلے گی۔ البتہ ماہرین نے یہ ضرور کہا ہے کہ روشنی چودھویں کے چاند سے کئی گنا زائد ہوسکتی ہے۔ اس سے قبل چین نے بھی خلائی اسٹیشن میر پر 25 میٹر قطر کا خلائی آئینہ بھیجنے کا اعلان کیا تھا تاکہ سائبیریا کے تاریک اور سرد علاقوں کو منور کیا جاسکے لیکن بعض تکنیکی وجوہ کی بنا پر ایسا نہ ہوسکا۔ اس سے قبل فرانسیسی ماہر نے بھی زمین کے اوپر آئینوں سے بھرپور ایک ہار کا خیال پیش کیا تھا جس سے پیرس کو پورے سال تک روشنی دینے کی بات کی گئی تھی۔
دنيا بھر ميں شہری علاقوں ميں روشنی کی ضرورت ذرا کچھ زيادہ ہی پڑتی ہے۔ ايک طرف گھروں اور دفاتر ميں بے پناہ بجلی درکار ہوتی ہے تو دوسری طرف سڑکوں اور شاہراہوں کو روشن رکھنے کے ليے بھی بجلی درکار ہے۔ بجلی کے اخراجات محدود کرتے ہوئے سڑکوں وغيرہ کو روشن بنانے کے ليے اب چين نے ايک بڑا ہی منفرد منصوبہ بنايا ہے۔ چین سن 2020 تک خلا ميں مصنوعی چاند بھيجنا چاہتا ہے۔ اس بارے ميں خبر چين کے سرکاری ميڈيا پر انیس اکتوبر کو جاری کی گئی۔
چين کے جنوبی صوبہ سيچوان کے شہر شينگڈو ميں بڑی بڑی روشنی والی سيٹلائٹس کی تياری جاری ہے۔
ابتدائی اندازوں کے مطابق انسانی چاند 10 سے 80 کلومیٹر قطر کے علاقے کو روشن کرسکے گا۔ چینی ذرائع نے بتایا کہ دمکنے والا سیٹلائٹ کئی برس قبل تیار ہوا تھا اور اب وہ آزمائشی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔
انسان کا تعمير کردہ ايسا پہلا مصنوعی چاند سيچوان ميں شيشانگ لانچ سينٹر سے سن 2020 ميں لانچ کيا جائے گا، جس کے بعد 2022ء تک ايسے تين مزيد چاند بھی خلاء ميں بھيجے جائيں گے۔
اس منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے سرگرم ايجنسی کے سربراہ وو چن فينگ نے بتايا ہے کہ پہلا چاند تجرباتی طور پر بھيجا جائے گا اور اگر يہ تجربہ کامياب رہا تو بعد ميں بھيجے جانے والے چاند اصل کام کريں گے۔ سورج کی روشنی منعکس کر کے روشنی پھيلانے کا کام کرنے والے مستقبل کے يہ مصنوعی چاند شہری علاقوں ميں سڑکوں وغيرہ پر نصب لائٹس کا نعم البدل ثابت ہو سکتے ہيں۔ روشنی حاصل کرنے کے اس نئے ذريعے کو ضرورت پڑنے پر کسی قدرتی آفت وغيرہ کی صورت ميں بھی استعمال کيا جا سکتا ہے۔ يہ مصنوعی چاند امدادی کاموں کے ليے روشنی فراہم کر سکتے ہيں۔
چين نے خلاء ميں امريکا اور روس کی پيش قدمی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور خود اس ميدان ميں آگے بڑھنے کے ليے متعدد منصوبے شروع کر رکھے ہيں۔
اس سے قبل فرانسیسی ماہر نے بھی زمین کے اوپر آئینوں سے بھرپور ایک ہار کا خیال پیش کیا تھا جس سے پیرس کو پورے سال تک روشنی دینے کی بات کی گئی تھی۔
فرانسیسی مصور کے زمین کے اوپر دائرے میں شیشے لٹکانے کا تصور مصنوعی چاند کے منصوبے کی بنیاد بنا۔
چینگ ڈو کے مصنوعی چاند کے منظرِ عام پر آنے سے پہلے ہی اس پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
نظامِ شمسی کے ماہرین اور مقامی لوگوں کے مطابق اس سے ماحولیات اور جانوروں پر خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔
 حکام کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اس منصوبے سے اسٹریٹ لائٹ پر خرچ ہونے والے پیسوں کی بچت ہوگی اور سیاحت کو فروغ ملے گا۔
انسانوں کے بنائے ہوئے اس چاند کے سولر پینل جیسے وِنگز پر ایسی کوٹنگ ہوگی، جو سورج کی روشنی کو زمین پر منعکس کرے گی۔
رپورٹس کے مطابق ان وِنگز کے زاویوں کو بدلا جاسکے گا جس سے شہر کے مخصوص علاقے میں روشنی فراہم ہوگی۔
سورج کی روشنی کو دنیا میں منعکس کرنے کے لئے اس سیٹلائٹ میں  دیو ہیکل آئینے لگائے گئے ہیں اور اس نوعیت کے کُل 3 مصنوعی  چاند سال 2022 تک خلاء میں بھیجنے کا ہدف قائم کیا گیا ہے۔
شہر کے سسٹم سائنس ریسرچ انسٹیٹیوٹ  کے سربراہ وُو چُن فِنگ نے موضوع سے متعلق جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ مدار میں سیٹنگ، کھُلنے اور  روشنی منعکس کرنے جیسے پروگراموں کے کنٹرول کے بعد سال 2020 میں مصنوعی چاند مکمل ہو جائے گا۔
ان سیٹلائٹوں میں دیو ہیکل آئینے نصب کئے جائیں گے جن کی مدد سے یہ سیٹلائٹ 24 گھنٹے مسلسل روشنی فراہم کریں گے۔
یہ سیٹلائٹ سورج  سے لے کر  جو روشنی دنیا میں منعکس کریں گے وہ 3 ہزار 600 سے لے کر 6 ہزار 400 مربع کلو میٹر تک کے علاقے کو روشن کریں گے۔
وُو نے کہا ہے کہ ہمیں توقع ہے کہ سیٹلائٹوں کی روشنی چاند کی روشنی سے آٹھ گنا زیادہ ہو گی۔ سیٹلائٹوں کو دنیا سے 500 کلو میٹر فاصلے  کے مدار میں رکھا جائے گا۔ اس مصنوعی چاند میں روشنی کی مقدار کو سیٹ کیا جا سکے گا اور زمین پر انسان اسے صرف ایک ستارے کی شکل میں دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ چاند خاص طور پر سول مقامات کو روشن کرنے کے لئے استعمال کئے جائیں گے اور ان کی مدد سے 1.2 بلین ین مالیت کی بجلی کی بچت ہو گی۔