مفتی یوسف لدھیانوی شہید
س… دُکھی انسانیت کی خدمت کرنا بہت بڑا ثواب ہے، اسلام میں کیا یہ جائز ہے کہ کوئی آدمی فوت ہونے سے پہلے وصیت کرجائے کہ مرنے کے بعد میری آنکھیں کسی نابینا آدمی کو لگادی جائیں؟
ج… کچھ عرصہ پہلے مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا سیّد محمد یوسف بنوری نے علماء کا ایک بورڈ مقرّر کیا تھا، اس بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف پہلووٴں پر غور و خوض کرنے کے بعد آخری فیصلہ یہی دیا تھا کہ ایسی وصیت جائز نہیں اور اس کو پورا کرنا بھی جائز نہیں۔ یہ فیصلہ ”اعضائے انسانی کی پیوندکاری“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
شاید یہ کہا جائے کہ یہ تو دُکھی انسانیت کی خدمت ہے، اس میں گناہ کی کیا بات ہے؟ میں اس قسم کی دلیل پیش کرنے والوں سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ واقعتا اس کو انسانیت کی خدمت اور کارِ ثواب سمجھتے ہیں تو اس کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار کیوں کیا جائے؟ بسم اللہ! آگے بڑھئے اور اپنی دونوں آنکھیں دے کر انسانیت کی خدمت کیجئے اور ثواب کمائیے۔ دونوں نہیں دے سکتے تو کم از کم ایک آنکھ ہی دیجئے، انسانیت کی خدمت بھی ہوگی اور ”مساوات“ کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔
غالباً اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ زندہ کو تو آنکھوں کی خود ضرورت ہے، جبکہ مرنے کے بعد وہ آنکھیں بیکار ہوجائیں گی، کیوں نہ ان کو کسی دُوسرے کام کے لئے وقف کردیا جائے؟
بس یہ ہے وہ اصل نکتہ، جس کی بنا پر آنکھوں کا عطیہ دینے کا جواز پیش کیا جاتا ہے، اور اس کو بہت بڑا ثواب سمجھا جاتا ہے، لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ نکتہ اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت (مرنے کے بعد کی زندگی) کے انکار پر مبنی ہے۔
اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی زندگی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ زندگی کا ایک مرحلہ طے ہونے کے بعد دُوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ ہے، مگر اس کی زندگی کے آثار اس جہان میں ظاہر نہیں ہوتے۔ زندگی کا تیسرا مرحلہ حشر کے بعد شروع ہوگا اور یہ دائمی اور ابدی زندگی ہوگی۔
جب یہ بات طے ہوئی کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ تو باقی رہتا ہے مگر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو اَب اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آدمی کو دیکھنے کی ضرورت صرف اسی زندگی میں ہے؟ کیا مرنے کے بعد کی زندگی میں اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اگر مرنے کے بعد کسی نوعیت کی زندگی ہے تو جس طرح زندگی کے اور لوازمات کی ضرورت ہے اسی طرح بینائی کی بھی ضرورت ہوگی۔
جب یہ بات طے ہوئی کہ جو شخص آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے اس کے بارے میں دو میں سے ایک بات کہی جاسکتی ہے، یا یہ کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتا، یا یہ کہ وہ ایثار و قربانی کے طور پر اپنی بینائی کا آلہ دُوسروں کو عطا کردینا اور خود بینائی سے محروم ہونا پسند کرتا ہے۔ لیکن کسی مسلمان کے بارے میں یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل نہیں ہوگا، لہٰذا ایک مسلمان اگر آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ خدمتِ خلق کے لئے رضاکارانہ طور پر اندھا ہونا پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ اس کی یہ بہت بڑی قربانی اور بہت بڑا ایثار ہے، مگر ہم اس سے یہ ضرور کہیں گے کہ جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہ اختیارِ خود اندھاپن قبول فرما رہے ہیں تو اس چند روزہ زندگی میں بھی یہی ایثار کیجئے اور اس قربانی کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار نہ کیجئے․․․!
ہماری اس تنقیح سے معلوم ہوا ہوگا کہ:
۱:… آنکھوں کا عطیہ دینے کے مسئلے میں اسلامی نقطہٴ نظر سے مرنے سے پہلے اور بعد کی حالت یکساں ہے۔
۲:… آنکھوں کا عطیہ دینے کی تجویز اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت کے انکار کا نظریہ اس کی بنیاد ہے۔
۳:… زندگی میں انسانوں کو اپنے وجود اور اعضاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا اپنے کسی عضو کو تلف کرنا نہ قانوناً صحیح ہے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔ اسی طرح مرنے کے بعد اپنے کسی عضو کے تلف کرنے کی وصیت بھی نہ شرعاً دُرست ہے، نہ اخلاقاً۔ بقدرِ ضرورت مسئلے کی وضاحت ہوچکی، تاہم مناسب ہوگا کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کردئیے جائیں۔
”عن عائشة رضی الله عنہا قالت: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: کسر عظم المیت ککسرہ حیًّا۔“
(رواہ مالک ص:۲۲۰، ابوداوٴد ص:۴۵۸، ابن ماجہ ص:۱۱۷)
ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میّت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندگی میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔“
”عن عمرو بن حزم قال: راٰنی النبی صلی الله علیہ وسلم متکئًا علٰی قبر، فقال: لا توٴذ صاحب ھذا القبر، أو لا توٴذہ۔ رواہ أحمد۔“ (مسند احمد، مشکوٰة ص:۱۴۹)
ترجمہ:… ”عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں قبر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر والے کو ایذا نہ دے۔“
”عن ابن مسعود: أذی الموٴمن فی موتہ کأذاہ فی حیاتہ۔“ (ابنِ ابی شیبہ، حاشیہ مشکوٰة ص:۱۴۹)
ترجمہ:… ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ موٴمن کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں ایذا دینا۔“
حدیث میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا لمبا قصہ آتا ہے کہ وہ ہجرت کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، کسی جہاد میں ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا، درد کی شدّت کی تاب نہ لاکر انہوں نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، ان کے رفیق نے کچھ دنوں کے بعد ان کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ٹہل رہے ہیں مگر ان کا ہاتھ کپڑے میں لپٹا ہوا ہے، جیسے زخمی ہوتا ہے، ان سے حال احوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ: اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی برکت سے میری بخشش فرمادی۔ اور ہاتھ کے بارے میں کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: جو تو نے خود بگاڑا ہے اس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔
ان احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ میّت کے کسی عضو کو کاٹنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں کاٹا جائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو عضو آدمی نے خود کاٹ ڈالا ہو یا اس کے کاٹنے کی وصیت کی ہو وہ مرنے کے بعد بھی اسی طرح رہتا ہے، یہ نہیں کہ اس کی جگہ اور عضو عطا کردیا جائے گا۔ اس سے بعض حضرات کا یہ استدلال ختم ہوجاتا ہے کہ جو شخص اپنی آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرجائے، اللہ تعالیٰ اس کو اور آنکھیں عطا کرسکتے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ اس کو نئی آنکھیں عطا کردے، مگر اس کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو آپ کو بھی نئی آنکھیں عطا کرسکتے ہیں، لہٰذا آپ اس ”کرسکتے ہیں“ پر اعتماد کرکے کیوں نہ اپنی آنکھیں کسی نابینا کو عطا کردیں․․․! نیز اللہ تعالیٰ اس بینا کو بھی بینائی عطا کرسکتے ہیں تو پھر اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کیوں فرماتے ہیں․․․؟
خلاصہ یہ کہ جو شخص مرنے کے بعد بھی زندگی کے تسلسل کو مانتا ہو اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرنا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص حیات بعد الموت کا منکر ہو اس سے اس مسئلے میں گفتگو کرنا بے کار ہے۔
آنکھوں کا عطیہ کیوں ناجائز ہے؟ جبکہ انسان قبر میں گل سڑ جاتا ہے
س… آنکھوں کے عطیہ کے بارے میں آپ نے جس رائے کا اظہار کیا، میں اس سے پوری طرح مطمئن ہوں، لیکن چند اُلجھنیں ذہن میں پیدا ہوتی ہیں، جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔
ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ قبر میں جانے کے ایک سال کے بعد انسان کا سارا کا سارا جسم ختم ہوجاتا ہے، یعنی زمین میں جو کیمیکل ہوتے ہیں انسان کا جسم ان میں مل جاتا ہے، بس انسان کی رُوح جو ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے، قبر میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ اور مسلمانوں کے ہاں یہ بھی ہوتا ہے کہ قبرستان کی ایک حد ہوتی ہے اس کے بعد اس قبرستان کو ختم کردیا جاتا ہے اور اس کے اُوپر دُوسری قبر بنادی جاتی ہے۔ اس لئے اگر آنکھوں کو مرنے کے بعد کسی زندہ شخص کو دے دیا جائے تو کیا حرج ہے؟ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ زمین میں پگھلے ہوئے انسان کو دُوسری زندگی عطا کریں گے تو کیا آنکھوں کے عطیہ سے محروم کردیں گے؟ (نعوذ باللہ)
ج… جی ہاں! قانون یہی ہے کہ جو چیز بہ اختیارِ خود ضائع کی ہو وہ نہ دی جائے، ویسے اللہ تعالیٰ کسی کا گناہ معاف کردیں یا گناہ کی سزا دے کر وہ چیز عطا کردیں، اس میں کسی کو کیا اعتراض؟ مگر ہم تو قانونِ الٰہی کے پابند ہیں۔ اس جرأت پر اپنی آنکھیں پھوڑ لینا کہ اللہ تعالیٰ اور دیدے گا، حماقت ہے۔ باقی یہ خیال غلط ہے کہ قبر میں جسم بالکل معدوم ہوجاتا ہے، جسم مٹی بن جاتا ہے اور مٹی کے ان ذرّات کے ساتھ (خواہ وہ کہیں کے کہیں منتشر ہوجائیں) رُوح کا تعلق باقی رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے برزخ میں (یعنی روزِ محشر سے پہلے پہلے) عذاب و راحت کا سلسلہ رہتا ہے۔
س… گزارش ہے کہ ہر انسان اور اس کی زندگی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، مردہ جسم کا قرنیہ جو مُردے کے لئے بے کار ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی امانت دُوسرے زندہ کی آنکھ میں منتقل کردی، یہ زندہ آدمی بھی اللہ تعالیٰ کی امانت ہے، گویا ایک امانت دُوسری امانت میں منتقل ہوگئی، اور اس عمل سے وہ زندہ انسان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی نعمتوں کو دیکھنے لگا اور اس کا شکر ادا کرنے لگا، ظاہراً تو یہ نہایت ہی نیک کام ہے، اور جب یہ آدمی مرے گا تو یہ قرنیہ بھی واپس دفن ہوجائے گا، اور جس سے یہ قرنیہ مستعار لیا گیا تھا اس کو واپس مل جائے گا۔ دُوسری بات یہ ہے کہ یہ قرنیہ اجازت سے لیا گیا ہے، کیونکہ انسان ہمدردی کے تحت اجازت دیتا ہے اس سے تو امانت، امانت ہی رہی۔ علماء کے فیصلے سے اپنی تسلی چاہتا ہوں۔
ج… اس سلسلے میں صحیح فیصلہ تو علمائے کرام ہی کرسکتے ہیں، اور ہمیں ان کے فیصلے پر اعتماد کرنا چاہئے۔ آنکھ اگر امانتِ الٰہی ہے تو ہمیں اس امانت میں تصرف کا حق بھی باذنِ الٰہی ہی حاصل ہوسکتا ہے، بحث یہ ہے کہ کیا اس تصرف کا حق شریعت نے دیا ہے؟ علمائے اُمت کی رائے یہ ہے کہ شرعاً اس تصرف کا ہمیں حق نہیں۔
س… بزرگوارم! آپ نے انسانی اعضاء کا عطیہ ناجائز لکھا ہے، چند دن قبل روزنامہ ”نوائے وقت“ میں ایک مفتی صاحب نے بہت سارے دلائل کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ بطور علاج حرام اشیاء کا استعمال بھی جائز ہے، ویسے بھی:
دردِ دِل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کم نہ تھے کر و بیان
کے پیشِ نظر سینکڑوں ہزاروں نابیناوٴں کو بینائی مل جائے تو اسلام کو اس خدمتِ خلق سے منع نہیں کرنا چاہئے۔
ج… ضروری نہیں کہ ہر مسئلے میں دُوسرے حضرات بھی مجھ سے متفق ہوں۔ ”دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ کوئی شرعی قاعدہ نہیں، اور یہ کہنے کی میں جرأت نہیں کرسکتا کہ ”اسلام کو فلاں چیز سے منع کرنا چاہئے، فلاں سے نہیں“ عقل کو حاکم سمجھنا اہلِ سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام نے انسانی اعضاء کی منتقلی کی اجازت نہیں دی۔
No comments:
Post a Comment