Tuesday, December 22, 2015

ایک فرضی کالم، جاوید چوہدری کی طرز پر

میں نرگس فخری کی تصویر والے اشتہار کو پورے تینتیس منٹ اور تنتالیس سیکنڈ تک دیکھتا رہا .پھر میں نے قہقہہ لگایا اور خواجہ صاحب کے پاس پہنچ گیا .خواجہ صاحب اس وقت سگریٹ کے دھویں کے مرغولوں سے نرگس فخری کی تصویر بنا بنا کر اسے اپنی گود میں پڑی اخبار پر بٹھاتے تھے ،اور پھر اسے پھونکوں سے اڑا دیتے تھے .ہم اس واقعے کو یہیں چھوڑتے ہیں ،میں آپکو سگریٹ کی کہانی سناتا ہوں .یہ میرے صحافتی کیریئر کے آغاز کی بات ہے کہ میں نے یکایک،اٹھائیس جنوری،1995 رات نو بج کر چودہ منٹ اور چوبیس سیکنڈ سے سگریٹ نوشی کا آغاز کر دیا .میں کے ٹو سگریٹ پیتا تھا .ایک دن ،میں کے ٹو ،سگریٹ کی ڈبی کے آگے بیٹھا تھا .میں نے ڈبی سے ایک سگریٹ نکالا ، قہقہہ لگایا اور اسے سلگانا چاہا ،سگریٹ نے اچانک قہقہہ لگایا اور مجھ سے بولا “جاوید،سگریٹ پینے والوں کے منہ سے بدبو آتی ہے ،کیا تم چاہتے ہو کہ جب تم کسی کی بغل میں منہ ڈالو تو تمھارے منہ سے بدبو آئے؟ میں نے فورا انکار میں سرہلا دیا .کے ٹو سگریٹ بولا ،تو تم فورا مجھے پینا چھوڑ دو .وہ دن اور آج کا دن میں سگریٹ نوشی سے اجتناب کرتا ہوں ،اس طرح میں فریش بھی رہتا ہوں ،میرے اندر رواداری بھی پیدا ہوتی ہے اور برداشت بھی بڑھتی ہے .میں حکومت سے گزارش کروں گا کہ وہ ہر شخص کی بغل میں ایک عدد کے ٹو سگریٹ کا بندوبست کرے جو لوگوں کو احساس دلاۓ کہ سگریٹ نوشی ایک بری عادت ہے .اس سے لوگوں میں روادری اور برداشت بڑھے گی .
اب ہم دوبارہ خواجہ صاحب کی طرف آتے ہیں .خواجہ صاحب وہ واحد انسان ہیں جو سگریٹ پینے کے باوجود روادار بھی ہیں اور انکی برداشت بھی کمال کی ہے .میں نے نرگس فخری کی تصویر والا ایڈ انکے سامنے پھیلایا اور پوچھا “خواجہ صاحب ،آپ نے نرگس فخری کی تصویر والا ایڈ اخباروں میں دیکھا ہے ؟ خواجہ صاحب نے میری طرف دیکھا قہقہہ لگایا اور بولے “تم اپنی والی نرگس کی بات کر رہے ہو ؟ وہ تو ایک اخبار کے صفحے پر آ ہی نہیں سکتی .میں نے خواجہ صاحب کے طنز کو نظر انداز کیا اور بولا” خواجہ صاحب یہ کیا ہے ؟ ہماری غیرت کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہم نے عورت کو کھلونا کیوں بنا دیا ہے ؟ دنیا میں ہر روز سات سو سترہ فحش اشتہار پبلش ہوتے ہیں ،ہم بھی اب اس کلچر کا شکار ہو رہے ہیں ،ہم نے اپنی روایات اور کلچر کا جنازہ نکال دیا ہے ” خواجہ صاحب نے میری جذباتی تقریر سنی ،قہقہہ لگایا ،سگریٹ سے نرگس فخری کو بنا کر اپنی پھونک سے اڑایا اور بولے ” جاوید تم لوگ ٹائلٹ واٹر کو منرل واٹر سمجھ کر پی رہے ہو ،تم انڈر ویئر کو ٹشو سمجھ کر ناک صاف کر رہے ہو ،تم جھاڑو سے دانتوں میں خلال کر رہے ہو ،تم وائپر سے دانت صاف کر رہے ہو ،تم گوند کو ٹوتھ پیسٹ سمجھ کر استمعال کر رہے ،تم لوگ کلچر اور روایات کا رونا کیسے رو سکتے ہو ؟” میں نے کہا مگر خواجہ صاحب …خواجہ صاحب نے قہقہہ لگا کر میری بات کاٹی اور کہا ،میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں ،تمہیں بات سمجھ میں آ جائے گی .
ایک گدھے کے چار بیٹے تھے .چاروں گدھے تھے .باپ بہت پریشان تھا کیونکہ وہ دن رات راہ چلتے لوگوں کو دولتیاں مار مار کر تنگ کرتے تھے .انکا باپ ایک بزرگ کے پاس گیا اور انہیں اپنا مسلہ بتایا .بزرگ نے گدھے باپ کی بات سنی ،قہقہہ لگایا اور کہا اے گدھے میری بات مانو اور چاروں کو نائی کے پاس لے جاؤ ،پھر ان سب کی حجامت کرا دو ،انکو انگریزی اخبار پڑھواؤ اور انکو اے لیول میں داخلہ دلوا دو ،یہ سدھر جائیں گے . اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہاری نسلیں المونیم کی بت کی طرح کھڑی رہ جائیں گی .گدھے نے بزرگ کی بات پر عمل کیا ،اسکے بچوں کی کایا ہی پلٹ گئی ،وہ خوش اخلاق بھی ہو گئے ،ان میں رواداری بھی بڑھ گئی ،اور برداشت بھی پیدا ہو گئی .جاوید ہمیں بھی اپنے بچوں کو انگریزی اخبار پڑھوانے ہوں گے ہمیں بھی انکی حجامت ماڈرن نائیوں سے کرانی ہو گی ،ہمیں بھی انہیں اے لیول میں داخلہ دلوانا ہو گا تب ہمیں نرگس فخری کی تصویروں پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا .میں نے خواجہ صاحب کی بات سے اتفاق کیا .حکومت کو چاہئے کہ نرگس فخری کی تصویر کا پوسٹر بنا کر پاکستان کے ہر گلی محلے میں لٹکا دے اس طرح ہمارے نوجوان بری صحبت سے بچ جائیں گے ،ان میں رواداری پیدا ہو گی اور برداشت بھی بڑھے گی .
خواجہ صاحب نے مجھ سے کہا ” جاوید ہمیں یہ کرنا ہو گا ،اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ،دنیا ہمارا قیمہ بنا کر گدھوں کو کھلا دے گی ،ہم تاریخ کے اندھے کنویں میں جا گریں گے .کوے ہمارے سر پر چونچیں ماریں گے ،میراثی ہمارے جنازے پڑھایا کریں گے .”میں نے خواجہ صاحب کی بات سن کر قہقہہ لگایا ،نرگس فخری کو پھونک سے اڑایا اور باہر نکل آیا .