Sunday, May 22, 2016

ہاتھ آپ کی صحت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ حیرت انگیز انکشافات

ہاتھ ہمارے جسم کا ایک اہم جز اور اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ انسان کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہیں- بات اگر روزمرہ کے کاموں کی جائے تو یقیناً ہاتھوں کے بغیر کوئی بھی کام کرنا ممکن نہیں- نہ آپ سبزی کاٹ سکتے ہیں اور نہ ہی کسی بھی چیز کو مضبوطی سے پکڑ سکتے ہیں- دیکھا جائے تو ہاتھ انسانی جسم کا سب سے ںمایاں حصہ ہیں- یوں توں آپ کو اپنے ارگرد کئی ایسے لوگ ملیں گے جو ہاتھ دیکھ کر یہ بتانے کا دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ کا ماضی٬ حال یا مستقبل کیسا ہوگا؟ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ اور انگلیوں کی اشکال سے آپ میں موجود مختلف بیماریوں کا پتہ لگانا بھی ممکن ہے؟ جی ہاں آپ کو یہ جان کو ضرور حیرت ہوگی کہ آپ کے ہاتھ آپ کے جسم میں خون کی روانی٬ ہارمونز اور تھائیرائیڈ کے متعلق اہم باتیں بیان کرتے ہیں- یہاں ہم صحت سے متعلق ایسی اہم باتوں کا ذکر کر رہے ہیں جو آپ کے ہاتھوں کے ذریعے ظاہر ہوتی ہیں-

سرخ ہاتھ اور آپ کی صحت:
اگر آپ کی ہتھیلیاں سرخ رہتی ہے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ آپ جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں- اگر آپ بہت زیادہ محنت طلب کام نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ہتھیلی سرخ رہتی ہے تو آپ کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے- جب آپ کا جگر درست طور پر اپنے امور سرانجام نہیں دیتا اور اور جسم میں موجود زہریلے مادے خارج نہیں کرپاتا تو ہاتھوں اور پاؤں میں موجود خون کی شریانوں کی سرگرمیوں اضافہ ہوجاتا ہے اور اسی کے نتیجے میں آپ کی ہتھیلی پر سرخ نشان آنا شروع ہوجاتے ہیں-

عموماً حاملہ خواتین سرخ ہتھیلیوں کی شکایت کرتی ہیں مگر اس میں پریشانی والی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ بھی خون کی شریانوں کی سرگرمیوں میں اضافے کی وجہ سے ہی ممکن ہوتا ہے- ایگزیما یا الرجی کے باعث بھی ہتھیلیاں اکثر سرخ ہوجاتی ہیں-

[​IMG]


انگلیوں کی لمبائی اور آپ کی صحت:
آپ کی انگلیوں کی لمبائی بھی آپ کی صحت کے متعلق حیرت انگیز انکشافات کر سکتی ہے- عموماً مردوں کی تیسری انگلی ان کی شہادت والی انگلی سے بڑی ہوتی ہے٬ جبکہ خواتین کے معاملے میں اس کے برعکس ہوتی ہے- ایک تحقیق کے مطابق گھٹنوں یا جوڑوں کا مرض جسے osteoarthritis کہتے ہیں ان مرد اور خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے جن کی تیسری انگلی لمبی ہوتی ہے- تاہم اس مرض کے زیادہ اثرات خواتین میں پائے جاتے ہیں- جن خواتین کی شہادت والی انگلی لمبی ہوتی ہے ان میں چھاتی کے کینسر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جبکہ ایسے مردوں میں پروسٹیٹ کا کینسر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں-

[​IMG]


ناخنوں کی پیلاہٹ اور آپ کی صحت:
اگر آپ ناخنوں کو دبائیں اور وہ ایک منٹ سے زیادہ دیر تک سفید رہیں یا پھر ہر وقت پیلے پڑے تو یہ اینیمیا کی علامات میں سے ایک ہوسکتی ہے- یہ بیماری زیادہ تر آئرن کی کمی کے باعث ہوتی ہے جس کی وجہ سے ناخنوں میں پیلا پن آجاتا ہے- اس پیلے پن کی دوسری وجہ خون میں لال خلیوں کی کمی بھی ہوسکتی ہے- آئرن کی کمی کے باعث تھکاوٹ اور زیادہ بیماری کی صورت میں دل کی بیماری ہونے کا خدشتہ بھی ہوتا ہے- لہٰذا اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے اندر آئرن کی کمی ہے تو اپنے معالج سے مشورہ کریں- آپ کے معالج آپ کو دوا کے ساتھ بھرپور غذا کا مشورہ بھی دے سکتے ہیں جیسے کہ گوشت٬ پالک اور ہری سبزیوں کا استعمال وغیرہ-

[​IMG]


انگلیوں کے سِروں پر سوجن اور آپ کی صحت:
جن لوگوں کی انگلیاں اوپر سے سوجھی ہوئی ہوتی ہیں یا ان پر ورم ہوتا ہے وہ زیادہ تر دل اور پھیپھڑوں کے عارضے میں مبتلا ہوتے ہیں- اس بیماری میں انگلیاں کے پور یا سِرے موٹے ہوجاتے ہیں اور ناخن ابھر کر باہر کی جانب آجاتے ہیں اور چمچ کی شکل اختیار کرلیتے ہیں-

محض صرف انہی علامات کی وجہ سے آپ کو کسی کو بیمار قرار نہیں دے سکے٬ جن افراد کی انگلیاں مذکورہ شکل کی ہوجاتی ہیں وہ سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے ذرائع علاج بھی موجود ہیں-

[​IMG]


انگلیوں کے نیلے پور اور آپ کی صحت:
انگلیوں کے پور اگر نیلے رںگ کے ہوں یا پر سُن ہوجاتی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو خون کی خرابی کی شکایت ہے جس کو Raynaud کی بیماری کہا جاتا ہے- اگر آپ اس بیماری کے شکار ہیں تو آپ کی انگلیاں اس وقت نیلی یا سرمئی رنگ کی ہوجائیں گی جب آپ کسی ٹھنڈی چیز کو ہاتھ لگائیں گے- یہ بیماری زیادہ تر خواتین میں پائی جاتی ہے تاہم یہ خطرناک نہیں ہے- اس بیماری میں خون کی رگیں بند ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے آپ کی انگلیاں نیلی یا سرمئی رنگ کی ہوجاتی ہیں- اگر آپ اس بیماری کا شکار ہیں تو آپ کو بچاؤ کے لیے دستانوں کا استعمال کرنا چاہیے-

[​IMG]


سوجھی ہوئی انگلیاں اور آپ کی صحت:
سوجھی ہوئی انگلیاں اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ آپ کا تھائیرائیڈ کا نظام درست طور پر کام نہیں کر رہا- جب آپ کا تھائیرائیڈ کا نظام صحیح کام نہیں کرتا تو وہ ایسے ہارمونز کم پیدا کرنے لگتا ہے جو کہ آپ کے میٹابولزم کے نظام کے لیے انتہائی ضروری ہوتی ہے- تھائیرائیڈ کے مسائل کو معمولی سمجھ کر نظرانداز مت کیجیے کیونکہ یہ کئی دوسری بیماریوں کو جنم دے سکتا ہے جو کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں- اپنے ڈاکٹر سے لازمی مشورہ کیجیے اور وہ چند ٹیسٹ کے ذریعے اس مرض کی تشخص کرے گا-

[​IMG]

ماخذ
 

Thursday, May 12, 2016

علی حیدر گیلانی کے اغواکی اصل کہانی کیا ہے؟



علی حیدر گیلانی کے اغواکی اصل کہانی کیا ہے؟
کہانی کی ابتدا ہوتی ہے مہمند ایجنسی سے!فاٹا ایجنسیز میں پولیٹیکل ایجنٹ گورنر کا نمائندہ ہوتا ہے ، اور پوری ایجنسی کے سیاہ و سفید کا مالک ،کسی بھی ایجنسی سے منشیات ، اسلحہ ، ودیگر اشیاء کی سمگلنگ اس وقت تک ناممکن ہوتی ہے، جب تک پولیٹیکل ایجنٹ کی مدد شامل نہ ہو،
ہر ایجنسی میں بڑے سمگلرز کا غیراعلانیہ ایک کنسور شیم بنا ہوتا ہے، جس میں اہم ترین معاملات طے کئے جاتے ہیں ،
سرکاری حکام کو رشوت دینی ہو، آپس کے جھگڑے طے کرنے ہوں ، یا دیگر جتنے بھی اہم معاملات ہوں ، ان لوگوں نے طے کرنے ہوتے ہیں ، ہر ایجنسی میں ان کی تعداد تین سے پانچ تک ہوتی ہے ، ان کا فیصلہ حرف آخر ہوتا ہے، تمام سمگلرز نے اسے من و عن قبول کرنا ہوتا ہے، ان کے ہر قسم کے تمام اخراجات چھوٹے بڑے تمام سمگلرز نے حصہ بقدر جثہ مل کے ادا کرنے ہوتے ہیں،
مئی 2012 کے تیسرے ہفتہ میں تین قبائلی بڑی خاص سفارش سے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی ملاقات کے لئے پرائم منسٹر ھاؤس آتےہیں ، ان کی ملاقات کا مقصد مہمند ایجنسی میں اپنی مرضی کا پولیٹیکل ایجنٹ لگوانا ہے، وزیر اعظم سے 25 کروڑ میں سودا طے پاتا ہے، چار ہفتے کا ٹائم دیا جاتا ہے،
پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری گورنر نے کرنی ہوتی ہے، جو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے،
گیلانی صاحب بگ باس کو بھی ان کا حصہ پہنچا چکے ہیں ، کہ 12 جون 2012 کو عدالتی حکم پہ گیلانی صاحب کو پرائم منسٹر ھاؤس سے گھر بھیج دیا جاتا ہے،
ان کے گھر پہنچنے کے پانچویں دن وہی تین قبائلی ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں ،
عرض گذارتے ہیں ، حضور آپ نے اپنا کام نہیں کیا، اور آپ اب پرائم منسٹر بھی نہیں رہے، ازراہ کرم ہمارا پچیس کروڑ واپس کردیں !
راجہ پرویز اشرف میری ہی سفارش پہ پرائم منسٹر لگے ہیں اور میں پارٹی کا وائس چئرمین بھی ہوں ، آپ لوگ ٹینشن نہ لیں ، آپ کا کام ہوجائے گا، مجھے ایک ہفتہ مہلت دیں، گیلانی صاحب نے یہ جواب دے کے ان کو واپس بھیج دیا،
گیلانی صاحب کو مہلت تو مل گئی ، لیکن بگ باس سے رقم بھی واپس نہیں مل رہی تھی ، اور کام بھی نہیں ہورہاتھا، ایک ہفتہ کی بجائے پورا ایک ماہ گذر گیا، لیکن ان قبائلیوں کو رقم واپس نہ کی گئی،
ایک مہینہ گذرنے پہ قبائلی ملتان پہنچ گئے،
گیلانی صاحب سے ملاقات کی ، اور انہیں بتلایا، حضور ہم نے اپنا بندہ لگوالیا ہے، کیونکہ ہمارا روزانہ کا کروڑوں کا نقصان ہورہاتھا ، اب آپ ہماری رقم واپس کردیں!
یہ سنتے ہی گیلانی صاحب کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ،
جواب دیا، میرے پاس تو دو کروڑ ہے ، جو میرے حصے میں آیا تھا، میں تو وہی واپس کرسکتا ہوں ، نیز اس طرح کے کاموں میں دی ہوئی رقوم واپس نہیں ہوتیں!
چلیں دو کروڑ دیں ، باقی بات پھر کرلیں گے ، گیلانی صاحب نے دو کروڑ لاکے ان کے سامنے رکھا، رقم قبضے میں لیتے ہی قبائلی وفد کا لیڈر بولا!
جناب ! ہم نے رقم آپ کو دی تھی ، ہم کسی بگ باس کو نہیں جانتے، اور ہم نے لینی بھی آپ ہی سے ہے، اور پوری پچیس کروڑ!
جو ہم نے آپ کو دی تھی، اب ہم نے واپس نہیں جانا، ہم سندباد ہوٹل ( ملتان کا مشہور ہوٹل ) میں ٹہرے ہیں ، جب تک آپ رقم نہیں دیں گے ہمارا قیام اسی ہوٹل میں رہےگا ، وہ خرچہ بھی آپ نے دینا ہے، اور مہلت بھی صرف تین دن کی ہے، تین روز بعد بقیہ تئیس کروڑ ہمیں واپس چاہئیں ،
قبائلیوں کے جانے کے بعد گیلانی صاحب نے ملتان پولیس میں اپنے کسی ممنون احسان کو فون کیا، اور کہا! سند باد ہوٹل میں تین قبائلی پٹھان روم نمبر فلاں میں ٹہرے ہوئے ہیں ، ان پہ کوئی ایسا کیس ڈالیں ، کہ یہ دوچارسال جیل سے باھر نہ آئیں ، پولیس نے ہوٹل انتظامیہ کو اعتماد میں لے کے مطلوبہ روم پہ چھاپہ مارا، قبائلیوں کو چرس سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کرلیاگیا!
معاملہ عدالت میں پہنچا، مارچ 2013 میں قبائلی باعزت بری ہوگئے،
جیل سے رہائی ملتے ہی قبائلی پھر گیلانی ھاؤس پہنچے ، اور عرض گذار ہوئے، آپ کا دیا ہوا دو کروڑ روپیہ تو پولیس ، ججز وغیرہ پہ خرچ ہوگیا ہے، اسی لئے ہم باعزت بری ہوگئے ہیں ، اب آپ کی طرف ہمارا تیس کروڑ ہے،
پانچ کروڑ ہرجانہ ، پچیس کروڑ اصل رقم!
اور ٹائم صرف ایک ہفتہ!
گیلانی صاحب نے جواب دیا !
I Am X Prime Minister ، اور تم میرے ہی گھر میں بیٹھ کے مجھے دھمکیاں دے رہے ہو ، شرافت سے چلے جاؤ، نہیں تو اب ساری زندگی کے لئے جیل میں سڑوگے!
یہ سنتے ہی قبائلی خاموشی سے وہاں سے چلے گئے،
ٹھیک ڈیڑہ ماہ بعد 9 مئی 2013 کو الیکشن کمپین میں مصروف علی حیدر گیلانی کے دو گن مینز کو قتل کرکے علی حیدر گیلانی کو اغواکرلیا گیا،
ایکس پرائم منسٹر کے بیٹے کا اغوا معمولی بات نہیں تھی ، تمام ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات اس کی تلاش میں لگ گئے، لیکن علی حیدر گیلانی کو زمین کھاگئی یا آسمان ؟ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا!
کچھ روز بعد گیلانی صاحب کو فون آیا، آپ کا بچہ ہمارے پاس ہے! تیس کروڑ روپیہ ادا کردیں ، اور اپنا بچہ واپس لے لیں ،
دوسری طرف خفیہ ایجنسیز کو اپنے ذرائع سے کچھ معلومات مل گئیں ، کہ مغوی کو اکوڑہ خٹک کے قریب فلاں مقام پہ رکھا گیا ہے!
پولیس اور ایجنسیز کے ذمہ دار پاور فل ریڈ کی تیاری کررہے تھے، اور لمحہ بلمحہ صورت حال سے گیلانی صاحب کو آگاہ کررہےتھے،
گیلانی صاحب سے یہاں ایک فاش غلطی ہوئی ، کہ ایک صحافی جو ان کا بڑاقریبی دوست ہونے کا دعویدار تھا، اسے اس چھاپے کے بارہ میں آگاہ کردیا،
اس صحافی دوست نے گیلانی صاحب کی پشت میں چھرا گھونپا ، سب سے پہلے خبر بریک کرنے کے چکر میں اس نے اپنے ٹی وی چینل پہ خبر چلوادی،
اغواکنندگان کے گرد گھیرا تنگ کردیاگیا ہے، چند گھنٹوں بعد علی حیدر گیلانی کو بازیاب کروالیا جائےگا،
یہ خبر سنتے ہی اغواکنندگان افراتفری کے عالم میں علی حیدر کو ساتھ لے کے افغانستان فرار ہوگئے، اتنا وقت نہیں تھا، کہ سارے مغویوں کو ساتھ لیجاتے، پولیس نے جب چھاپہ مارا ، علی حیدر گیلانی کو اس وقت تک افغانستان پہنچایا جا چکا تھا،
افغانستان پہنچنے کے بعد گیلانی صاحب سے پھر رابطہ کیا گیا ، انہوں نے تیس کروڑ ادائیگی کی حامی بھر لی ، اسلام آباد اور اکوڑہ خٹک کی دو اہم ترین شخصیات کو بیچ میں ڈالاگیا ، تیس کروڑ کی ادائیگی کردی گئی لیکن اکوڑہ خٹک کے جس مقام پہ چھاپہ ماراگیا تھا انہوں نے بھی پچیس کروڑ کا مطالبہ علی حیدر کے اغوا کنندگان سے کردیا کیونکہ ان کے دو مغوی پولیس کے ہاتھ لگ گئے تھے،جن کا تاوان پچیس کروڑ ان کے ورثاء سے مانگاگیا تھا!
گیلانی صاحب کے لیت و لعل پہ مغوی کو افغانستان کے ایک گروپ کے ہاتھ پچپن کروڑ میں بیچ دیا گیا،
گیلانی صاحب ایک بار تیس کروڑ اور دوسری بار پچیس کروڑ کل ملا کے پچپن کروڑ دے چکے تھے ، لیکن ان کے لیت ولعل کے دوران علی حیدر پچپن کروڑ میں آگے بِک چکا تھا،
افغانی گروپ نے گیلانی صاحب سے رابطہ کیا، اور اسی کروڑ تاوان طلب کرلیا، یعنی قیمت خرید پہ پچیس کروڑ منافع !
اس سودے پہ کئی ماہ تک گفت و شنید چلتی رہی ، گیلانی صاحب کا مؤقف یہ تھا ، کہ میں پچیس کا نادھندہ تھا اور ستاون کروڑ ( دو پہلی قسط تیس دوسری قسط اور پچیس تیسری قسط ) ادا کرچکا ہوں ، اب میں ایک روپیہ بھی اور نہیں دونگا،
بالآخر گوجرانولہ کی ایک پارٹی جو گیلانی صاحب کے بہت بڑے سپورٹر اور ذاتی دوست ہیں ، پنجاب کے اہم شہروں میں 70 سے زائد ان کے پیٹرول اسٹیشن ہیں , دیگر کاروبار اس کے علاوہ، بلامبالغہ وہ کھرب پتی پارٹی ہے، انہوں نے گیلانی صاحب کو بتائے بنا اپنی طرف سے پچیس کروڑ مزید ادا کئے،
یوں علی حیدر گیلانی کو اغوا کنندگان نے افغانستان میں ایسے مقام پہ پہنچایا، جہاں سے افغان فورسز نے اسے وصول کر کے پاکستانی حکام کو اطلاع پہنچائی ،
اس سارے واقعہ میں گیلانی صاحب ان کی فیملی و دیگر عزیز و اقارب نے جو ذہنی اذیت تقریبا تین سال تک اٹھائی ، وہ بیان سے باھر ہے،
یوں علی حیدر بخیر و عافیت گھر واپس پہنچ گئے، یہاں یہ بات بھی قارئین کو بتاتا جاؤں ، کہ علی حیدر کینسر کے مریض بھی ہیں ، اغوا کے روز اول سے رہائی تک کسی روز بھی نہ تو ان کے علاج معالجہ میں کوئی کوتاہی کی گئی ، اور نہ ہی ان کی خوراک میں،
عبرت کی بات یہ ہے، کہ باپ اور فیورٹ انکل ( Big Boss ) کے جرم کی سزا بیگناہ بیٹے اور پوری فیملی کو بھگتنی پڑی !
جو روز مر مر کے جیتے رہے۔
یوں اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہوا،

Wednesday, May 11, 2016

سولر انرجی پر زندہ بچے

حال ہی میں پاکستان میں تین ایسے بچوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے جو ایک پراسرار مرض کا شکار ہیں اور ڈاکٹروں نے ان کا نام سولر بچے رکھا ہے کیونکہ یہ بچے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں لیکن جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو ان بچوں کے جسم توانائی بھی کم ہونے لگتی ہے- یہاں تک کہ غروب آفتاب کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں-
 

اسلام آباد کے ہسپتال میں ان بچوں کو دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہو رہے ہیں۔ یہ بچے کوئٹہ سے یہاں لائے گئے ہیں۔ انوکھی بیماری کے شکار ان بچوں کے لاتعداد میڈیکل ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے لاہور اور اسلام آباد تک ابھی کوئی اس بیماری کا نام و پتہ نہیں بتا سکا ہے۔ یہ کون سی بیماری ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس کی کیا تشخیص ہو گی۔ علاج کیسے ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا۔ اس نئی بیماری کی علامات بھی انوکھی اور منفرد ہیں۔ 

پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بیماری ہے۔ اس سے پہلے یہاں اس طرح کی بیماری کی کوئی تاریخ یا مثال نہیں ملتی ہے۔ 

محمد ہاشم خضدار کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ میاں گھنڈی نامی یہ چھوٹا سا گاؤں کوئٹہ سے صرف45 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں محمد ہاشم کے گھر پیدا ہونے والے ایک نہیں بلکہ پانچ بچے اس بیماری کے شکار ہوئے ہیں۔ دو کی لاعلاج موت واقع ہو چکی ہے۔اب یہ کل چھ بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں اور ایک بھائی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن تین بھائی اس نئی بیماری میں مبتلا ہیں۔ شعیب کی عمر 14 سال، عبدالرشید 9 اور الیاس ایک سال کا ہے۔
 

طلوع آفتاب کے وقت یہ بچے بیدار ہوتے ہیں۔ ان کا جسم معمول کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ یہ مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اچھلتے کودتے ہیں۔ معمول کی خوراک تناول کرتے ہیں۔سورج ان کی زندگی ہے۔ جوں ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے۔ ان کی زندگی بھی غروب ہونے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے جسم سے توانائی ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ لاغر ہو کر گر پڑتے ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد سے ان کے جسم نیم مردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے۔ بات کرنا کجا ہونٹ بھی نہیں ہلا سکتے۔ اور بھر سوجاتے ہیں۔ نیند موت کا دوسرا نام ہے۔ اگلی صبح یہ پھر زندہ ہو جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح سورج کے ساتھ ہی ان کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی طلوع اور غروب ہوتی ہے۔

گل آفتاب کے بارے میں سب نے سنا ہوگا۔ دیکھا بھی ہوگا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ پھول کھل اٹھتا ہے۔ یہ سورج کے ساتھ ہی اپنا رخ بھی تبدیل کرتا ہے۔ جس طرف سورج ، اسی جانب اس پھول کا کھلا ہوا چہرہ، رات کو یہ مرجھا جا تا ہے۔ اسی لئے اسے گل آفتاب کہتے ہیں۔ ان بچوں کو کیا نام دیا جائے۔ ڈاکٹروں نے ان کا نام سولر بچے رکھا ہے۔ یعنی شمسی توانائی پر چلنے پھرنے والے بچے۔ اب شمسی توانائی پر زندہ رہنے والا انسان دریافت ہوا ہے۔ جسے آدم آفتاب یا سولر انسان بھی کہا جا سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ یہ کیا بیماری ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ علاج کیا ہوگا۔ 
 

سچ یہ ہے کہ انسان ہی اپنی ہلاکت کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں دستیاب ہر چیز مصنوعی ہے۔ یہ جعلی اور مصنوعی پن انسان میں بھی ہے۔ بازار میں ہر چیز نقلی دستیاب ہے۔ دودھ دہی، انڈا، مرغ ، مصالحے سبھی چیز مصنوعی ہے۔ ہم مجبور ہیں۔ جب معیاری چیز نہ ملے تو یہی استعمال کرنا مجبوری ہے۔ دودھ کے بارے میں نئے سروے آ رہے ہیں کہ اس میں واشنگ پاؤڈر، کیمیکلز اور زہریلی چیزیں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ دودھ نہیں بلکہ سفیدی ہوتی ہے۔ سفید رنگ بھی ہوتے ہیں۔ یوریا تک اس میں ڈالی جا رہی ہے۔لوگ زہریلی مٹھائیاں اور زہریلا دودھ پی کر مر رہے ہیں۔ زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے قصے سب نے سنے ہوں گے۔شراب ویسے بھی حرام ہے۔ حلال اشیاء بھی زہریلی ہو رہی ہیں۔جن کے استعمال سے انسان کی نشو ونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں کون چیکنگ کرے گا۔ زیادہ تر لوگ راتوں رات دولت مند بننے کی لالچ میں ہیں۔ یہ رشوت ایسے لیتے ہیں جیسے اس پر ان کا حق ہو۔ کہتے ہیں کہ نوکری پر گزر بسر نہیں ہوتا۔ کیا کریں۔ دوم یہاں طبقہ بندیاں بھی ہیں۔ ایک دفتر میں بیٹھنے والا دو لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھا دوسرا چند ہزار روپے لے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے معیار زندگی میں زمین اور آسمان کا فرق ہو گا ۔ نیز ستم یہ کہ دو لاکھ والا چند ہزار والے کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔ دونوں ادارے کے ملازم ہیں۔لیکن افسر کم تنخواہ دار کو بھی اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ یوں یہ بے چارہ ایک تنخواہ پر کئی ملازمتیں کرتا ہے۔ کئی افسروں کی ملازمتیں۔ اسے ملاوٹ جیسے دو نمبر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبکہ دو نمبر کام بے ایمانی ہے۔ یہ بالکل جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ 

بازاروں میں ساگ سبزیاں۔ پھل فروٹ بھی مصنوعی بک رہے ہیں۔ یہ بھی کمیکل سے تیار کئے جاتے ہیں۔ درختوں سے کچے اتار کر ان پر زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔ یہ فوری پک جاتے ہیں۔ قدرت کے ساتھ یہ ہمارا ہتک آمیز مقابلہ ہے۔ انسان اﷲ کے مد مقابل کچھ بھی نہیں آسکتا۔ قدرت سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ 

شمسی توانائی اور چاندنی راتیں بھی ہر جاندار کے لئے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ ان میں طاقت، مٹھاس، ٹھنڈک، یعنی ہر توانائی کا پہلو ہے۔ معلوم نہیں یہ بچے وٹامنز یا پروٹینز یا کسی دیگر کمی کا شکار ہوئے۔ ان کے سینکروں ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ ابھی بھی جاری ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف میڈیسن امریکہ، برطانیہ کے نیشنل ہوسپیٹل فار نیورالجی اید نیوروسسرجری اور دیگر سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنز یا پیمز ہسپتال اسلام آباد کے ڈاکٹروں کے ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹروں سے رابطے ہو رہے ہیں۔ ٹیسٹوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ 
 

یہ تین بھائی ہی اس بیماری میں مبتلا نہیں بلکہ ان کے دو بھائی اس مرض کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان کا والد چھوٹا کسان بھی ہے اور آئی ٹی یونیورسٹی میں نائب قاصد بھی ہے۔ اس نے اپنی کزن کے ساتھ شادی کی ہے۔ تاہم حیرانی ظاہر کی جا رہی ہے ان بچوں میں دو بہنیں بالکل صحت مند ہیں۔ اگر پاکستانی ڈاکٹرز اس بیماری کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان دنیا کو نئے بیماری سے متعارف کرنے والا ملک بن جائے گا۔ میڈیکل کی تاریخ میں پاکستان کے لئے انوکھی بیماری اور اس کی تشخیص اور علاج کا ایک موقع ہے۔ وفاقی حکومت نے ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سرکاری خرچ پر ان کے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ اﷲ کرے یہ بچے جلد صحت یاب وشفایاب اور پاکستان تمام بیماریوں سے محفوظ ہو۔

Monday, May 9, 2016

بیس سالہ پیچیدہ مسئلہ حل

جس بات کی تلاش میں سائنس دان 20 سال سے لگے ہوئے تھے اور سیٹلائٹ کے ذریعے نگرانی بھی ہو رہی تھی ایک عام سے ان پڑھ شخص نے دو لفظوں میں سمجھا دی۔ 
کبھی کبھی کوئی ان پڑھ بھی ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سائنس دانوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خبر آج بی بی سی پر دیکھی جو پورا لطیفہ تھی۔
اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والے سائنسداں پاسکل پیڈوجی، جمیکا کے شہر نیگرل میں ساحلوں کے سکڑنے کے اسباب کی تلاش میں ہیں۔
وہ حیران ہیں کہ آخر سیٹلائٹ سے نگرانی کے بعد بھی اس کی وجہ سامنے کیوں نہیں آ رہی اور جب مقامی لوگوں نے انھیں ایک راز کی بات بتائی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔
مقامی باشندوں نے بتایا کہ ساحل پر ریت مافیا سرگرم ہے جس کے مسلح کارندے رات میں آتے ہیں اور بوریوں میں ریت بھر کر لے جاتے ہیں اور تعمیراتی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں۔
پاسکل کہتے ہیں کہ وہ ماحولیات پر گذشتہ 20 سال سے کام کر رہے ہیں، مگر ریت کی اہمیت انھیں اب سمجھ میں آئی ہے۔


Wednesday, May 4, 2016

فیس بک کے مالک” مارک زکر برگ“ نے KPK حکومت کو مزید کام کرنے سے روک دیا۔

فیس بک کے مالک” مارک زکر برگ“ نے
 KPK حکومت کو مزید کام کرنے سے روک دیا۔
 نیویارک(نمائندہ خصوصی) 2013 میں پی ٹی آئی نے خیرپختون خواہ میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیاتھا۔ جن کے مطابق350ڈیم، ایک ارب درخت،سڑکیں، ہسپتال، لاکھوں سکول،اور امن وامان کو قائم رکھنے کے لئے چوہوں کے خلاف ضربِ خان آپریشن شروع کرنے کا کہا گیا تھا۔ 
چنانچہ حکومت قائم ہونے کے کچھ ہی دن بعد ان منصوبوں پر کام شروع ہوا، یہ منصوبے تکمیل کے آخری مراحل میں تھے کہ اچانک فیس بک کے بانی مارک زکر برگ نے عمران خان اور پرویز خٹک سے رابطہ کرکے مزید کام کرنے سے روک دیا، مارک زکر برگ کا کہنا تھا جو کام کرنا ہے اپنے صوبے میں کرو، سارا کچھ فیس بک پر ہی کرتے جارہے ہو۔ فیس بک پر چوہے مار مار کر اسے گندا نہ کرو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تمہارے اتنے زیادہ درخت لگانے کی وجہ سے فیس بک پر اشتہارات لگانے کی جگہ ختم ہوتی جارہی ہے۔مارک زکر برگ نے کہا فیس بک ڈیم بنانے کے لئے نہیں بنائی اور نہ ہی فیس بک پر سکول چلانے کی اجازت ہے البتہ معیاری،علمی اور معلوماتی پوسٹیں کی جاسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا فیس بک پر پشاور کے چوہے دیکھ کر میری اکلوتی بیٹی گھبراتی ہے۔