Wednesday, May 11, 2016

سولر انرجی پر زندہ بچے

حال ہی میں پاکستان میں تین ایسے بچوں کے بارے میں انکشاف ہوا ہے جو ایک پراسرار مرض کا شکار ہیں اور ڈاکٹروں نے ان کا نام سولر بچے رکھا ہے کیونکہ یہ بچے سورج کی پہلی کرن کے ساتھ زندہ ہوتے ہیں لیکن جب سورج ڈھلنا شروع ہوتا ہے تو ان بچوں کے جسم توانائی بھی کم ہونے لگتی ہے- یہاں تک کہ غروب آفتاب کے بعد مکمل طور پر مفلوج ہوجاتے ہیں-
 

اسلام آباد کے ہسپتال میں ان بچوں کو دیکھنے کے لئے لوگ بے تاب ہو رہے ہیں۔ یہ بچے کوئٹہ سے یہاں لائے گئے ہیں۔ انوکھی بیماری کے شکار ان بچوں کے لاتعداد میڈیکل ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے لاہور اور اسلام آباد تک ابھی کوئی اس بیماری کا نام و پتہ نہیں بتا سکا ہے۔ یہ کون سی بیماری ہے۔ اس کی وجوہات کیا ہیں۔ اس کی کیا تشخیص ہو گی۔ علاج کیسے ہوگا۔ کوئی نہیں جانتا۔ اس نئی بیماری کی علامات بھی انوکھی اور منفرد ہیں۔ 

پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بیماری ہے۔ اس سے پہلے یہاں اس طرح کی بیماری کی کوئی تاریخ یا مثال نہیں ملتی ہے۔ 

محمد ہاشم خضدار کے ایک گاؤں کا رہنے والا ہے۔ میاں گھنڈی نامی یہ چھوٹا سا گاؤں کوئٹہ سے صرف45 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس گاؤں میں محمد ہاشم کے گھر پیدا ہونے والے ایک نہیں بلکہ پانچ بچے اس بیماری کے شکار ہوئے ہیں۔ دو کی لاعلاج موت واقع ہو چکی ہے۔اب یہ کل چھ بہن بھائی ہیں۔ دو بہنیں اور ایک بھائی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن تین بھائی اس نئی بیماری میں مبتلا ہیں۔ شعیب کی عمر 14 سال، عبدالرشید 9 اور الیاس ایک سال کا ہے۔
 

طلوع آفتاب کے وقت یہ بچے بیدار ہوتے ہیں۔ ان کا جسم معمول کے مطابق حرکت کرتا ہے۔ یہ مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ اچھلتے کودتے ہیں۔ معمول کی خوراک تناول کرتے ہیں۔سورج ان کی زندگی ہے۔ جوں ہی سورج غروب ہونے لگتا ہے۔ ان کی زندگی بھی غروب ہونے لگتی ہے۔ آہستہ آہستہ ان کے جسم سے توانائی ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ لاغر ہو کر گر پڑتے ہیں۔ غروب آفتاب کے بعد سے ان کے جسم نیم مردہ ہو جاتے ہیں۔ یہ اٹھ بیٹھ نہیں سکتے۔ بات کرنا کجا ہونٹ بھی نہیں ہلا سکتے۔ اور بھر سوجاتے ہیں۔ نیند موت کا دوسرا نام ہے۔ اگلی صبح یہ پھر زندہ ہو جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح سورج کے ساتھ ہی ان کی نقل و حرکت ہوتی ہے۔ ان کی زندگی طلوع اور غروب ہوتی ہے۔

گل آفتاب کے بارے میں سب نے سنا ہوگا۔ دیکھا بھی ہوگا۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو یہ پھول کھل اٹھتا ہے۔ یہ سورج کے ساتھ ہی اپنا رخ بھی تبدیل کرتا ہے۔ جس طرف سورج ، اسی جانب اس پھول کا کھلا ہوا چہرہ، رات کو یہ مرجھا جا تا ہے۔ اسی لئے اسے گل آفتاب کہتے ہیں۔ ان بچوں کو کیا نام دیا جائے۔ ڈاکٹروں نے ان کا نام سولر بچے رکھا ہے۔ یعنی شمسی توانائی پر چلنے پھرنے والے بچے۔ اب شمسی توانائی پر زندہ رہنے والا انسان دریافت ہوا ہے۔ جسے آدم آفتاب یا سولر انسان بھی کہا جا سکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ یہ کیا بیماری ہے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔ علاج کیا ہوگا۔ 
 

سچ یہ ہے کہ انسان ہی اپنی ہلاکت کے اسباب پیدا کرتا ہے۔ اس وقت ہمیں دستیاب ہر چیز مصنوعی ہے۔ یہ جعلی اور مصنوعی پن انسان میں بھی ہے۔ بازار میں ہر چیز نقلی دستیاب ہے۔ دودھ دہی، انڈا، مرغ ، مصالحے سبھی چیز مصنوعی ہے۔ ہم مجبور ہیں۔ جب معیاری چیز نہ ملے تو یہی استعمال کرنا مجبوری ہے۔ دودھ کے بارے میں نئے سروے آ رہے ہیں کہ اس میں واشنگ پاؤڈر، کیمیکلز اور زہریلی چیزیں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ دودھ نہیں بلکہ سفیدی ہوتی ہے۔ سفید رنگ بھی ہوتے ہیں۔ یوریا تک اس میں ڈالی جا رہی ہے۔لوگ زہریلی مٹھائیاں اور زہریلا دودھ پی کر مر رہے ہیں۔ زہریلی شراب پی کر مرنے والوں کے قصے سب نے سنے ہوں گے۔شراب ویسے بھی حرام ہے۔ حلال اشیاء بھی زہریلی ہو رہی ہیں۔جن کے استعمال سے انسان کی نشو ونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ مارکیٹ میں کون چیکنگ کرے گا۔ زیادہ تر لوگ راتوں رات دولت مند بننے کی لالچ میں ہیں۔ یہ رشوت ایسے لیتے ہیں جیسے اس پر ان کا حق ہو۔ کہتے ہیں کہ نوکری پر گزر بسر نہیں ہوتا۔ کیا کریں۔ دوم یہاں طبقہ بندیاں بھی ہیں۔ ایک دفتر میں بیٹھنے والا دو لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور اس کے ساتھ بیٹھا دوسرا چند ہزار روپے لے رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ دونوں کے معیار زندگی میں زمین اور آسمان کا فرق ہو گا ۔ نیز ستم یہ کہ دو لاکھ والا چند ہزار والے کو انسان ہی نہیں سمجھتا۔ دونوں ادارے کے ملازم ہیں۔لیکن افسر کم تنخواہ دار کو بھی اپنا ملازم سمجھتا ہے۔ یوں یہ بے چارہ ایک تنخواہ پر کئی ملازمتیں کرتا ہے۔ کئی افسروں کی ملازمتیں۔ اسے ملاوٹ جیسے دو نمبر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ جبکہ دو نمبر کام بے ایمانی ہے۔ یہ بالکل جائز نہیں ہو سکتا ہے۔ 

بازاروں میں ساگ سبزیاں۔ پھل فروٹ بھی مصنوعی بک رہے ہیں۔ یہ بھی کمیکل سے تیار کئے جاتے ہیں۔ درختوں سے کچے اتار کر ان پر زہریلی ادویات چھڑکی جاتی ہیں۔ یہ فوری پک جاتے ہیں۔ قدرت کے ساتھ یہ ہمارا ہتک آمیز مقابلہ ہے۔ انسان اﷲ کے مد مقابل کچھ بھی نہیں آسکتا۔ قدرت سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ 

شمسی توانائی اور چاندنی راتیں بھی ہر جاندار کے لئے انتہائی مفید ہوتی ہیں۔ ان میں طاقت، مٹھاس، ٹھنڈک، یعنی ہر توانائی کا پہلو ہے۔ معلوم نہیں یہ بچے وٹامنز یا پروٹینز یا کسی دیگر کمی کا شکار ہوئے۔ ان کے سینکروں ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ ابھی بھی جاری ہیں۔ جان ہاپکنز یونیورسٹی سکول آف میڈیسن امریکہ، برطانیہ کے نیشنل ہوسپیٹل فار نیورالجی اید نیوروسسرجری اور دیگر سے بھی رابطہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنز یا پیمز ہسپتال اسلام آباد کے ڈاکٹروں کے ساتھ ملک بھر کے ڈاکٹروں سے رابطے ہو رہے ہیں۔ ٹیسٹوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ 
 

یہ تین بھائی ہی اس بیماری میں مبتلا نہیں بلکہ ان کے دو بھائی اس مرض کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ان کا والد چھوٹا کسان بھی ہے اور آئی ٹی یونیورسٹی میں نائب قاصد بھی ہے۔ اس نے اپنی کزن کے ساتھ شادی کی ہے۔ تاہم حیرانی ظاہر کی جا رہی ہے ان بچوں میں دو بہنیں بالکل صحت مند ہیں۔ اگر پاکستانی ڈاکٹرز اس بیماری کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان دنیا کو نئے بیماری سے متعارف کرنے والا ملک بن جائے گا۔ میڈیکل کی تاریخ میں پاکستان کے لئے انوکھی بیماری اور اس کی تشخیص اور علاج کا ایک موقع ہے۔ وفاقی حکومت نے ان بچوں کے علاج کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ سرکاری خرچ پر ان کے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں۔ اﷲ کرے یہ بچے جلد صحت یاب وشفایاب اور پاکستان تمام بیماریوں سے محفوظ ہو۔

No comments:

Post a Comment